Zafar Iqbal (poet)
Quick Facts
Biography
ظفر اقبال (انگریزی: Zafar Iqbal)، (پیدائش: 27 ستمبر، 1932ء) پاکستان کے معروف شاعر اور کالم نگار ہیں۔ وہ معاصر جدید اردو غزل کے اہم ترین شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے بیٹے آفتاب اقبال معروف ٹی وی اینکر ہیں۔
حالات زندگی و تعلیم
ظفر اقبال 27 ستمبر، 1932ء کو بہاولنگر، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد چک نمبر 49/3Rضلع اوکاڑہ کے ایک معزز زمیندار تھے۔ ظفر اقبال نے ابتدائی تعلیم بہاولنگر سے حاصل کی اور میٹرک ایم سی ہائی اسکول اوکاڑہ سے 1950ء میں کیا۔انٹرمیڈیٹ کا امتحان ایف سی کالج لاہور اور بی اے گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ ظفر اقبال نے ایل ایل بی کا امتحان لا کالج پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔
وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے اوکاڑہ کچہری میں پریکٹس شروع کر دی۔ وہ ایک بار اوکاڑہ ایسوسی ایشن اور دو مرتبہ پریس کلب اوکاڑہ کے صدر بھی رہے۔ اس دوران انہوں نے قومی سیاست میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ 1977ء کے انتخابات میں ظفر اقبال نے نیشنل عوامی پارٹی کے کوٹے سے راؤ خورشید علی خان کے مقابلے میں الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
ادبی خدمات
پرائمری کے دوران ان کی طبیعت شاعری کے لیے موزوں ہو چکی تھی، کیونکہ ان کے استاد نور احمد انجم قریشی جو خود بھی شاعر تھے بچوں کو بطور املا اشعار لکھ کر دیتے۔ ظفر اقبال آٹھویں جماعت تک کلیات میر اور دیوانِ غالب کا بھرپور مطالعہ کر چکے تھے۔ شفیق الرحمن کی تحریریں پڑھ کر ان کے اندر لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ انہوں نے غزل کے پیرائے میں فنی اور موضوعاتی سطح پر روایت شکنی کے حوالے سے اپنی ایک الگ اور بھرپور پہچان بنائی۔ اُن کے پہلے شعری مجموعے آب رواں کو عوام اور خواص، ہردو حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی۔ اس کے بعد انہوں شعری تجربات کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے بام عروج تک پہنچایا۔ 1973ء میں انہوں نے پہلا کالم سرور سکھیرا کے پرچے دھنک کے لیے لکھا۔ ان کے مختلف اخبارات میں 'دال دلیا' کے نام شائع ہونے والے ان کے کالم بھی اپنے قارئین کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ظفر اقبال 16 فروری،1995ء سے یکم مارچ، 1997ء تک اردو سائنس بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
تصانیف
- خشت زعفران
- اطراف
- آب رواں
- عیب و ہنر
- ہرے ہنیرے
اعزازات
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا ہے۔
نمونۂ کلام
غزل
کچھ اور ابھی ناز اٹھانے ہیں تمہارے | دنیا یہ تمہاری ہے، زمانے ہیں تمہارے | |
باتیں ہیں تمہاری جو بہانے ہیں تمہارے | اسلوب تو یہ خاص پرانے ہیں تمہارے | |
ویرانۂ دل سے تمہیں ڈر بھی نہیں لگتا | حیرت ہے کہ ایسے بھی ٹھکانے ہیں تمہارے | |
آنا ہے بہت دور سے ہم نے تری جانب | اور، باغ یہیں چھوڑ کے جانے ہیں تمہارے | |
ہر وقت یہاں خاک ہی اڑتی ہے شب و روز | دریا انہی صحراؤں میں لانے ہیں تمہارے | |
ہوتا، ظفر، ان میں جو کوئی رنگِ حقیقت | ویسے تو سبھی خواب سہانے ہیں تمہارے |
غزل
جس نے نفرت ہی مجھے دی نہ ظفرؔ پیار دیا | میں نے سب کچھ اسے کیوں ہار دیا وار دیا | |
اک نظر نصف نظر شوخ نے ڈالی دل پر | اور اس دشت کو پیرایۂ گلزار دیا | |
وقت ضائع نہ کرو ہم نہیں ایسے ویسے | یہ اشارہ تو مجھے اس نے کئی بار دیا | |
زندہ رکھتا تھا مجھے شکل دکھا کر اپنی | کہیں روپوش ہوا اور مجھے مار دیا | |
زردیاں ہیں مرے چہرے پہ ظفرؔ اس گھر کی | اس نے آخر مجھے رنگ در و دیوار دیا |
غزل
خامشی اچھی نہیں، انکار ہونا چاہیے | اور یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہیے | |
بات پوری ہے اُدھوری چاہیے اے جانِ جاناں | کام آساں ہے اسے دشوار ہونا چاہیے | |
دوستی کے نام پر کیجیے نہ کیونکر دشمنی | کچھ نہ کچھ آخر طریقہ کار ہونا چاہیے | |
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اُس پر ظفر | آدمی کو صاحب ِ کردار ہونا چاہیے |