Wasfi Bahraichi
Quick Facts
Biography
عبدالرحمن خاں وصفیؔ بہرائچی ضلع بہرائچ کے ایک مشہور استاد تھے۔جناب کی پیدائش 22 اکتوبر، 1914ء کو شہر کے محلہ میراخیل پورہ بہرائچ میں ہوی۔آپ کے والد کا نام حافظ عبدالقادر اور والدہ کا نام محترمہ مقبول بیگم تھا۔
حالات
وصفی بہرائچی کے مورث اعلیٰ اللہ داد خاں کے والد۔ دور مغلیہ میں کابل کے سرحدی علاقہ وزیرستان حسن خیل ہندوستان وارد ہوے خاندان کےبعض فرد ملیح آباد اور بعض فرد مرادآباد میں سکونیت لےلی۔ آپ کے اجداعلیٰ مولوی ضامن علی خاں "انیق بہرائچی"بہرائچ تشریف لائے اوریہیں کے ہو کے رہ گے۔انیق بہرائچی صاحب بیاض اور صاحب کتاب شاعر تھے۔ انکا سا را علمی اثاثہ ضائع ہوچکا ہے صرف دو مطبوعہ کتابیں مل سکیں جو ابتک محفوظ ہیں۔ ایک کا عنوان "مناقب چار یار" اور دوسری فارسی میں ہے اس کے علاوہ کچھ قلمی نسخےبھی ہیں۔
ادبی خدمات
1940ء میں ایک کل ہند طرحی مشاعرہسے وصفی صاحب کے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔ یہیں پر انھوں نے اپنی پہلی غزل پڑھی تھی۔ وصفی صاحب کا اصل میدان سخن نعت گوئی ہے۔ آپ اپنی تصنیف افکار وصفی میں اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ جہاں تک مزاج غزل کا تعلق ہے وہ میرےمزاج سےمطابقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ ناظرین کرام دیکھیں گےزیر نظر مجمو عہ میں زیادہ تر اشعارتصوف یا اصلاحی رنگ میں ہیں۔میں نے شاعری کو اپنا پیشہ نہیں بنایا بس اپنےذوق کی تسکین کے لئےشعر کہے ہیں۔
ڈاکڑمحمدنعیم اللہ خاں خیالی آپکی کتاب "افکار وصفی" میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ برادر گرامی جناب وصفی ایک شستہ و سنجیدہ شاعرانہ ذوق کے حامل ہیں۔ جوبازار کا خریداہوامال نہیں بلکہ موروثی جائداد ہے اور اس پر حق مالکانہ رکھتےہیں۔آپ کے پردادا حضرت ضامن علی خاں انیق تو جناب میر انیس کے ہمعصرتھے۔ ان کا اکثرفارسی اور اردوکلام بشکل ممطبوعہ و مخطوطہ موجود ہے۔ اسی لئےوصفی صاحب نے اگرچہ باقاعدہ کسی کی شاگردی اختیا رنہیں کی مگر وراثتہ جو مذاق سخن اس میں پختگی ہے ,وقار ہے,ایک اندازہے,ادائیگی کا بانکپن ہے,ڈھب سے بات کہنے کا قرینہ ہے,چنانچہ فرماتےہیں ........
قدم جو اٹھاوہ اٹھا بانکپن سے | ||
سلیقہ ملا یہ مجھےاہل فن سے |
یہں بلکہ وہ ایک رنگ اور دوسرے رنگ کی تمیز بھی رکھےہیں چاہے یہ فرق خود اپنےکلام ہی میں کیوں نہ واقع ہوگیا ہو.دیکھئے یہں نہیں بلکہ وہ ایک رنگ اور دوسرے رنگ کی تمیز بھی رکھےےہیں چاہے یہ فرق خود اپنےکلام ہی میں کیوں نہ واقع ہوگیا ہو۔دیکھئے.....
وصفیؔ اب اپنے رنگ میں پڑھئے کوئی غزل | ||
ہر شعر آج سب کو برنگ دگر ملا |
وصفی صاحب پسندیدہ مشغلئہ شخن نعت گوئی ہے.جناب کی ساری شاعری میں یہ خاص چیز ہے.جس میں فکر کی. پاکیزگی جذبات کی گیرائی نظر کی بلندی آداب پیش کشی۔اظہار شوق کا لسلیقہ.لطف زبان .نفاست بیان وغیررہ قابل داد ہے۔
ادبی سخصیات سے رابطہ
عبد الرحمن خاں وصفی ؔ بہرائچی شہرو ضلع بہرائچ کے مشہور استاد شاعر تھے ۔آپ کے دادا ضامن علی خا ں انیقؔ بہرائچی میر انیس کے ہم عصر شاعر تھے اور صاحب دیوان شاعر تھے ۔وصفی صاحب کے بھائی ڈاکڑ نعیم اللہ خاں خیالی بھی ضلع بہرائچ کے مشہور ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ساتھ تین درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔وصفی صاحب کا ضلع بہرائچکے تمام ادیبوں اور شاعروں سے گہرا تعلق تھا ۔ آپ حاجی شفیع اللہ شفیع ؔ بہرائچی کے گہرے دوست تھے اور روز شام کو شفیع صاحب کی دوکان سنگم ہوٹل پر آتے تھے جو ہر شام کو ادبی محفل کا مقام تھا جہاں بیٹھ کر وصفی صاحب ، ساغر مہدی ،ااظہار وارثی، عبرت بہرائچی اپنے کلام کو ایک دوسرے سے ساجھا کرتے تھے۔ ،وصفی صاحب کا رافعت بہرائچی، شوق بہرائچی،بابو لاڈلی پرشاد حیرتؔ بہرائچی، بابا جمال ،حکیم اظہر وارثی، واصل بہرائچی واصف ؔ القادری نانپاروی،ایمنؔ چغتائی نانپاروی ،محسن ؔ زیدی،عبد الطیف زرگر شوق نیپالی، اظہار وارثی، عبرت بہرائچی ،والی آسی لکھنوئی فنا نانپاروی،اثر بہرائچی،شاعر جمالی وغیرہ سے گہرا تعلق تھا ۔
شاگرد
وصفی صاحب کے شاگروں میں حاجی لطیف بہرائچی،اطہر رحمانی اور فیض بہرائچی کا نام قابل ذکر ہے ۔
تصنیف
وصفی بہرائچی کا صرف ایک مجموعہ کلام افکار وصفی نام سے اگست 1986ء میں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ اتر پردیش کے مالی تعاون سے شائع ہوا تھا ۔جو آپ کی غزلوں کا مجموعہ تھا ۔
وفات
وصفی بہرائچی کا انتقال 13اپریل1999ء میں شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں واقع مکان میں ہوا تھا اور تدفن شہر کے مشہور قبرستان عیدگاہ میں ہوئی تھی ۔جس میں عوام کے علاوہ شاعروں اور ادیبوں نے بھی شرکت کی تھی۔
نمونہ کلام
- 1
قدرت کے کرشمے ہیں یہ ہیں وقت کے حالات | سورج کو اب آئینہ دکھانے لگے ذرات | |
یہ چاند یہ سورج یہ نجوم ارض و سماوات | ہیں خلق مگر خالق اکبر کی ہیں آیات | |
بے واسطہ الفت میں جب آتے ہیں پیامات | ہوتے ہیں بہت سخت وہی عسق لمحات | |
بے سعی عمل ہیچ ہے ہر فکر و تدبر | بے معنی و مفہو م غلط حرف و حکایات | |
وہ اور ہیں حالات بدل دیتے ہیں جن کو | ہم صاحب ہمت ہیں بدل دیتے ہیں حالات |
- 2
آگیا لے سیلاب کرم | دیدۂ گریں ا ب تو تھم | |
ڈھونڈلے ان کے نقشِ قدم | تیرے قدم پر جاہ و حشم | |
کون کرے گا طے پیہم | راہِ طلب کے پیچ وخم | |
بھیگی پلکیں آنکھیں نم | اَ تو برس اے ابر کرم | |
چھیڑ دے ساز عیش و طرب | اٹھ نہ سکے جب بارِ الم | |
دیکھ کبھی دامن اپنا | دیکھنے والے بیش و کم |
- 3
کیا چیز محبت ہے زمانے کو دکھا دو | دل صاف کرو اتنا کہ آیئنہ بنا دو | |
تعمیر گلستاں کے لئے کیا ہے ضروری | بھولے ہیں جو یہ بات انھیں یاد دلا دو | |
معلوم ہوں سب ایک ہی کنبے ہیں افراد | یوں شمع مساوات واخوت کی جلا دو | |
اب دور نہیں آپ سے کچھ آپ کی منزل | منزل کی طرف ایک اور بڑھا دو | |
یوں مل کے رہو اہل چمن صحن چمن میں | دشمن کے لئے آہنی دیوار بنا دو | |
یہ اندرا گاندھی سے سبق ہم کو ملا ہے | فتنہ جب اٹھے کوئی تو طاقت سے دبا دو | |
وصفیؔ ہے یہی فرض یہی شرط وفا بھی | اس خاک کے ہر ذرے کو گلزار بنا دو |
- 4
شفیع بہرائچیکے بڑے بھائی قادر میاں کے انتقال پر لکھے اشعار قلمی نشخہ
جانتے تھے کہ ایک روز زیر زمیں | ہم کو رہنا ہے تاریک ماحول میں | |
جاکے حرمین سے اپنے قادر میاں | شمع لے آیے تھے روشنی کے لئے | |
زندگی ہے تو کچھ کام کی بات ہو | دین ودنیا میں آرام کی بات ہو | |
موت کی بات مجھ سے اگر پوچھیئے | درس عبرت ہے ہر آدمی کے لئے |
حوالہ جات
- افکار وصفی مطبوعہ 1986ء
- نغمعہ دل و مضراب نشاط از حاجی لطیف ؔ بہرائچی مطبوعہ 1984ء
- روزنامہ ہندستان بہرائچ میں شائع مضمون 2014ء
- احساسات فیض مطبوعہ 2015ء
- https://archive.org/details/AfkaarEWasfi
- https://rekhta.org/poets/abdul-rahman-khan-wasfi-bahraichi
- https://www.youtube.com/watch?v=xqwEPE21Td8